Get me outta here!

Monday 24 June 2019

Hazrat Yousuf (A.S)




حضرت یوسفؑ کا بقیہ حصہ

حضرت یوسفؑ جب قید میں تھے تو بادشاہ کو ایک خواب آیا۔ اس نے دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور گندم کے ایک پودے میں سات سر سبز بالیاں ہیں ، اچانک سات پتلی بالیوں نے انھیں کھا لیا۔ جیسے ہی صبح ہوئی اس نے اپنے درباریوں اور دوسرے افراد جو خواب کی تعبیر کر سکتے تھے ان کو یہ خواب بتایا۔ لیکن کوئی ان خوابوں کی تعبیر نہ بتا سکا۔ ان درباریوں میں وہ ساقی بھی موجود تھا۔ اس نے سوچا وہ قیدی جس نے مجھے خواب کی تعبیر بتائی تھی میں نے تو اس کا تذکرہ ہی نہیں کیا بادشاہ سے۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ بادشاہ سلامت قید خانے میں ایک قیدی نے مجھے میرے خواب کی تعبیر بتائی تھی اور بالکل سہی بتائی تھی۔ آپ کہیں تو میں اس سے آپ کے خواب کی تعبیر پوچھ آؤں۔ بادشاہ نے کہا بالکل ضرور جاؤ۔ وہ جیل گیا خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے۔ اس نے حضرت یوسفؑ کو بادشاہ کا خواب بتایااور کہا کہ اس کی تعبیر بتاؤ۔ حضرت یوسفؑ نے بغیر کسی شرط کے تعبیر بتائی اور کہا کہ آنے والے ساتھ سال بہت زرخیز ہوں گے۔ ہر طرف اناج، فصل، غلہ ہو گا۔ لیکن اس کے بعد جو سات سال آئیں گےاس میں تاریخ کا بدترین قحط پڑے گا۔ کچھ کھانے کو نہیں ہو گا، لوگ بھوکے مر جائیں گے۔ کچھ کھانے کو نہیں ہو گا۔ اس لیے اپنے بادشاہ کو مشورہ دو کہ اُن سات سالوں کے لیے آج سے ہی غلہ جمع کرنا شروع کر دے تاکہ قحط کے سالوں میں زندہ رہا جا سکے۔ اس ساقی نے یہ تعبیر سنی اور اپنے بادشاہ کو جا کرخواب کی تعبیر بتائی کہ یہ کہہ رہا ہے وہ قیدی۔ بادشاہ نے کہا کہ فوراً اس قیدی کو یہاں بلاؤ۔ وہ گیا اس نے حضرت یوسفؑ کو کہا کہ بادشاہ  سلامت آپ کو طلب کر رہے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے کہا کہ نہیں میں اب ایسے باہر نہیں آؤں گا۔ پہلے ان تمام عورتوں کو بُلواؤ جنہوں نے مجھ پر تہمط لگائی تھی اور زلیخا کو بلاؤ۔ ان سب کو بُلایا گیااوربھرے دربار میں حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی کی گواہی دی۔ میں گناہ کا ارادہ رکھتی تھی۔ جب زلیخا نے حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی کی گواہی دے دی تو  حضرت یوسفؑ نے کہا اب میں بادشاہ سے ملنے کو تیار ہوں۔ جب حضرت یوسفؑ محل کے دربار میں داخل ہوئے تو ہر کوئی بادشاہ سمیت آپؑ کا حسن، آپ کی بزرگی، آپ کا ارعب دیکھ کر شدید متاثر ہوئے۔ بادشاہ نے کہا آپ نے خواب کی تعبیر تو بتا دی ہے ،اب اس قحط سے بچنے کے لیے مدد بھی آپ ہی کر دیجیے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا ان معاملات کا انتظام میرے علاوہ کوئی نہیں سمبھال سکتا۔ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ آپ مجھے غلہ کے سرکاری گوداموں کی نگرانی سونپ دیں تاکہ میں آنے والے سات قحط والے سالوں کے لیے غلہ بچا سکوں۔ بادشاہ ویسے بھی حضرت یوسفؑ سے بہت متاثر ہو چکا تھا اس لیے اس نے آپؑ کو اس درجے پہ مقرر کر دیا جس کا انھوں نے کہا۔ جیسا حضرت یوسفؑ نےکہا تھا سات سال ٹھیک گزر گئے اور اس کے اگلے سات سالوں میں قحط پڑ گیا۔ قحط اتنا شدید ہو گیا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مصر کے علاوہ کسی ملک میں غلہ نہ بچا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا بھر سے قافلے مصر آنے لگے غلہ لینے کے لیے۔ ایک دن حضرت یوسفؑ کے پاس ایک قافلہ آیا غلہ مانگنے کے لیے۔ یہ قافلہ حضرت یوسفؑ کے دس بھائی تھے جنھوں نے آپؑ کو کنوے میں پھینکا۔ وہ آپؑ کو نہ پہچان پائے کیوں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حضرت یوسفؑ  اس مقام و مرتبہ پہ فائز ہوئے لیکن حضرت یوسفؑ نے ان کو پہچان لیا۔ حضرت یوسفؑ نے انہیں اپنے بارے میں نہیں بتایا لیکن ان سے ان کے علاقے کے بارے میں پوچھا، ان کے والد کے بارے میں پوچھا اور پوچھا کہ وہ کتنے افراد ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ ہم ایک ہی باپ کے بارہ بیٹے ہیں ایک بھائی گم ہو گیا ہے اور اس کا چھوٹا بھائی ہمارے والدکے پاس ہے۔ حضرت یوسفؑ نے ان سے کہا کہ اگلی بار جب آؤ گے تو اپنے اس چھوٹے بھائی(بنیامین) کو لے کر آنا ورنہ مت آنا۔ حضرت یوسفؑ نے انھیں بہترین غلہ  دے کر رخصت کر دیا۔ جب وہ سارے بھائی حضرت یعقوبؑ کے پاس پہنچے اور انھوں نے وہ تھیلے کھولے (جن میں غلہ تھا ) تو انھوں نے دیکھا کہ جو رقم انھوں نے غلہ خریدنے کے لیے دی تھی وہ بھی حضرت یوسفؑ نے واپس کر دی۔ یہ دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد سارے بھائی اپنے باپ سے ضد کرنے لگے کہ کچھ دنوں بعد جب غلہ ختم ہو جائے گا تو دوبارہ لینے جانے کے لیے بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے گا۔ انھوں نے کہا ہے کہ چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لانا ورنہ مت  آنا۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کو سختی سے منع فرما دیا۔ جب بھائیوں نے اسرار کیا تو آخر انھوں نے بنیامین کو ان کے ساتھ بھیج دیا اور ان سے وعدہ لیا کہ اس کا خیال رکھنا۔ پھر یہ سارے بھائی دوبارہ حضرت یوسفؑ کے پاس پہنچے ۔ اس بار انھوں نے پھر سے ان کو ان کی قیمت سے بھی زیادہ غلہ دے دیا لیکن بنیامین کو بتا کر اس کے تھیلے میں   اپنے پانی بینے کا پیالہ رکھ دیا۔ جب وہ قافلہ روانہ ہو گیا اور راستے میں پہنچا تو حضرت یوسفؑ نے کچھ لوگ ان کے پیچھے بھیجے۔ انھوں نے کہا کہ رُک جاؤ، تم میں سے کسی نے چوری کی ہے۔ بھائیوں نے کہا ہم نے چوری نہیں کی، ہم چور نہیں ہیں بے شک ہماری تلاشی لے لو۔ تلاشی لی گئی اور بنیامین کے تھیلے میں سے ایک پیالہ برآمد ہو گیا۔ چوری کی وجہ سے حضرت یوسفؑ نے ابنیامین کو روک لیا۔ سارے بھائی روتے رہے لیکن پھر بھی انھیں واپس حضرت یعقوبؑ کے پاس جاناپڑا۔ حضرت یعقوبؑ نے کہا دوبارہ مصر جاؤ اور بنیامین کو واپس لے کر آؤ۔ جب یہ لوگ واپس مصر گئے تو انھوں حضرت یوسفؑ  نے کہا کہ تمہارا ایک بھائی یوسف بھی تھا۔ تم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کو پتا چل گیا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ ان کا بھائی یوسفؑ ہے۔  اس موقع پر انھوں نے اپنی قمیض اتار کر اپنے بھائیوں کو دی اور کہا یہ بابا جان کی آنکھوں پہ رکھنا ان کی بینائی واپس آ جائے گی۔ جب وہ بھائی حضرت یعقوبؑ کے پاس پہنچے بھی نہیں تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے میرے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔اس قمیض سے آپؑ کی بینائی واپس آگئی۔ حضرت یوسفؑ کا تمام خاندان پھر مصر حجرت کر گیا۔ سب دربار یوسف میں پہنچے اور ا ن کے سامنے جھک گئے۔ تب حضرت یوسفؑ نے اپنے والد سے کہا کہ بابا جان یہی وہ دن ہے جو مجھے خواب میں بتایا گیا تھا  کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔ اس خؤاب کا مطلب یہ تھا کہ گیارہ ستارے مطلب گیارہ بھائی، سورج اور چاند مطلب ان کے والدین ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔ اس موقع پہ انھوں نے کہا کہ آج کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ اور یہی بات حضرت محمدﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر بولی تھی اپنی جان کے دشمنوں کو کہ 
آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔




















Friday 21 June 2019

Hazrat Yousuf (A.S)




حضرت یوسفؑ کا بقیہ حصہ

حضرت یوسفؑ جب جوان ہوئے تو ان کا حسن عروج پر پہنچ گیا۔ انھوں نے زلیخا کو ہمیشہ پاک نظر سے دیکھا لیکن زلیخا آپ کے حسن پہ فریقتہ ہو گئی۔ آہستہ آہستہ زلیخا کی یہ محبت ایک دن اس انتہا پہ لے آئی کہ اس نے گناہ کا سوچا۔ ایک دن حضرت یوسفؑ محل کے ایک اندرونی حصے میں تھےکہ زیلخا نے محل کے سارے دروازے بند کر دیے اور انھوں نے حضرت یوسفؑ کو گناہ کی دعوت دی   اور کہا جلدی آؤ۔   حضرت یوسفؑ نے کہا کہ اﷲ کی پناہ ! وہ میرا مالک ہے۔ یعنی گھر کا مالک اور تیرا خاوند، میرا آقا ہے۔ مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں  ہوتا ہے۔ پھر اﷲ نے حضرت یوسفؑ کو تونائی بخشی اور پھر حضرت یوسفؑ محل  سے نکلنے کی غرض سے بھاگے۔ جہاں پر سے وہ بھاگے تھے وہاں سے محل کے باہر تک سات دروازے تھے۔ ہر دروازے پہ تالا لگا ہوا تھا۔ اﷲ کی قدرت سے سارے دروازوں کے تالے خودبخود کُھلتے جاتے اور حضرت یوسفؑ بھاگتے جاتےاور زلیخا ان کے پیچھے بھاگتی گئی۔ ساتویں دروازے پہ زلیخا ان کو پکڑنے میں کامیاب ہوئی اور جیسے ہی زلیخا نے حضرت یوسفؑ کو پکڑا ان کی قمیض  پیچھے سے پھٹ گئی۔ اسی کے دوران محل کا دروازہ کھلا اور عزیزِ مصر اندر داخل ہوا۔ عزیزِ مصر نے جب یہ سارا مصر دیکھا تو اس کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر زلیخا نے اپنا رویہ ہی بدل لیا اور رونے لگی۔ اس نے عزیزِ مصر سے کہا آپ نے اس شخص کو اپنا بیٹا بنانے کا ارادہ کیا، آپ جانتے ہیں کہ کیا غضب ہو گیا، اس شخص نے میری عزت پہ ہاتھ ڈالا ہے(نا اعوذُباﷲ) ۔ حضرت یوسفؑ نے عزیزِ مصر سے کہا  میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ، آپ میرے آقا ہیں ، یہ عورت مجھے پھسا رہی ہے۔ عزیزِ مصر نے کہا کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے اپنی صداقت میں بولنے کے لیے۔ حضرت یوسفؑ نے ارد گرد سوالیہ آنکھوں سے ارد گرد دیکھا لیکن ان کو کچھ نظر نہیں آیا سوائے ایک چھوٹے بچے کے۔ پھر حضرت یوسفؑ نے دعا کی کہ اے خدا! اب تو ہی میری عزت کی حفاظت کرنے والا ہے۔یہ دعا پوری ہوئی تو اس بچے نے بولنا شروع کر دیا۔ اس نے کہا کہ اگر اس کا کُرتا  آگے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ اور اگر اس کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو عورت جھوٹی اور یوسف سچا ہے۔عزیزِ مصر اس گواہی کو سننے کے بعد  دیکھتا ہے کہ کُرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو اس کو حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی پہ کوئی شک نہ رہا اور پھر اس نے حضرت یوسفؑ سے معافی مانگی اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ تو ہی گناہ گار  ہے۔ اس کے بعد یہ سارا واقعہ پورے شہر میں پھیل گیا۔ یہاں تک کہ شہر کی عورتیں زلیخا کو طعنے دینے لگی۔  پھر زلیخا نے ان ساری عورتوں کو اپنے گھر دعوت دی اور حضرت یوسفؑ کو بہترین  لباس  پہناکر تیار کیا۔ زلیخا نے ساری عورتوں کو ایک ایک چھری دی پھل وغیرہ کاٹنے کے لیے۔جب وہ عورتیں پھل کاٹنے لگیں تو  زلیخا نے حضرت یوسفؑ  کو حکم دیا کہ عورتوں کے سامنے آئیں۔ جیسے ہی حضرت یوسفؑ کمرے میں آئے اور ان کا نورانی چہرا ان عورتوں نے دیکھا تو ان کا اپنا ہوش ہی نہ رہا اور انھوں نے اپنا ہاتھ زخمی کر لیا اور انھیں تکلیف کا ذرا احساس نہ رہا۔ زلیخانے کہا یہی ہیں جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں۔  پھر اس نے حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا میں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا، لیکن یہ بال بال بچا رہا۔ اور کو کچھ میں اس سے کہہ رہی ہوں ، اگر یہ نہ کرے تو یقیناً قید کر دیا جائے گا اور بے شک یہ بہت ہی بے عزت ہو گا۔  ان سب عورتوں نے ان کو اپنی ملکہ کی فرماں برداری کے لیے کہا لیکن آپ نے سکتی سے انکار کیا اور وہاں سے جا کر اﷲ سے دعا کی کہ"اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں، اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے۔ اگر تو نے ان کا فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گااور مالکل نادانوں سے جا ملوں گا"۔ حضرت یوسفؑ کی بے گناہی ثابت ہو جانے کے باوجود ان کو قید خانے میں  ڈال دیا گیا۔ اسی جیل میں دو اور نوجوان تھے۔ ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا بادشاہ کا باورچی تھا۔ وہ کسی جرم میں مشکوک تھے تو بادشاہ نے ان کو قید کر لیا۔ جب ان کی ملاقات حضرت یوسفؑ سے ہوئی تو وہ ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ دونوں جب رات کو سوئے تو ان کو ایک عجیب خواب آیا۔ انھوں نے صبح حضرت یوسفؑ سے اپنا خواب بیان کیا۔ ساقی نے کہا انگوروں کی بیل کی تین شاخیں ہیں، ان میں پتے اُگ آئے اور انگوروں کے گھچے لگ کر پک گئے ہیں۔ اس نے انھیں لے کر بادشاہ کے پیالے میں نچوڑا اور اسے وہ مشروب پلا دیا۔ باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیوں کی تین ٹوکڑیاں ہیں اور پرندے سب سے اوپر کی ٹوکڑی سے کھا  رہےہیں۔ حضرت یوسفؑ نے دونوں کے خوابوں کی تعبیر بتائی ،ساقی سے کہا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تمہاری نوکری بہال ہو جائے گی۔ باورچی سے کہا کہ تمہارا بادشاہ تمہیں پھانسی پہ چڑھا دے گا اور پرندے تمہارے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ حضرت یوسفؑ نے جیسا کہا ویسا ہی ہوا۔ باورچی کو بادشاہ نے پھانسی پہ چڑھا دیا اور ساقی کی رہائی کا وقت قریب آگیا۔ حضرت یوسفؑ نے اس ساقی کو پاس بلایا اور کہا کہ جب یہاں سے رہا ہو جانا توپھر اپنے بادشاہ کو میرے بارے میں   بتانا۔ جب وہ شخص رہا ہوا تو شیطان نے اس کے ذہن سے وہ بات بھلا دی جو اسے حضرت یوسفؑ نے کہی تھی اور پھر حضرت یوسفؑ طویل عرصہ جیل میں قید رہے۔ جاری ہے۔۔۔


























Monday 17 June 2019

Harat Yousuf (A.S)







حضرت یوسفؑ کا بقیہ قصہ

جب وہ قافلہ روانہ ہوا اور حضرت یوسفؑ کے بھائی گھر کو روانہ ہوے تو قافلے کے سرادر نے ایک غلام کو حضرت یوسفؑ کی نگرانی پہ رکھا دیا کیونکہ اس کو پتہ تھا کہ یہ کوئی عام شخص نہیں اور یہ بھی لگتا تھا کہ کہیں یہ سرکش غلام نہ ہو۔ راستے میں ان کا گزر ایک قبرستان سے ہوا جہاں حضرت یوسفؑ کی والدہ کی قبر تھی۔ حضرت یوسفؑ اپنی والدہ کی قبر کے سامنے گرگئے اور فریاد کی کہ اے مادرِ گرامی آپ تو یہاں کفن میں منہ چھپائےہوئے ہیں ذرا سر اٹھائیں اور دیکھیے کہ میں گلے میں طوق ہے ،میرے پاوں پہ زنجیر ہے، میں نے غلاموں کا لباس پہنا ہےاور آپ کا بیٹا آپ کی زیرت کے لیے آیا ہے۔ اس قبر سے آواز آئی کہ اے فرزند! تیری باتوں نے میرے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے،میرے جگر کو پارہ پارہ کر دیا ہےبیٹا ہر بلا اور مصیبت میں صبر کراﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ جب صبح ہوئی تو جو غلام حضرت یوسفؑ کے اوپر نظر رکھتا تھا اس نے صبح اٹھ کے دیکھا تو حضرت یوسفؑ غائب تھے۔ اس نے باہر جا کے دیکھا تو حضرت یوسفؑ اپنی والدہ کے قبر کے پاس بیٹھے تھے۔ اس نے کہا کہ تمہارے آقاؤں نے سچ کہا تھاتو تو واقعی بہت سرکش ہے، تو شاید بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ ساری باتیں اس نے بہت تلخ  لحجے میں کیں لیکن حضرت یوسفؑ نے منہ سے کچھ نہ کہا لیکن دل سے ایک ایسی آہ نکلی کے فرشتوں میں شوروغل برپا ہو گیا، سیاہ آندھیاں چلنے لگیں ، بجلی چمکنے لگی اور عذاب جیسی کیفیت ہو گئی۔ قافلہ والوں نے یہ دیکھا تو وہ گھبرا گئےاور وہ غلام جس نے حضرت یوسفؑ کو باتیں سنائیں تھیں دربار میں حضرت یوسفؑ کو لے کر آیااور کہنے لگا کہ یہ آفت میری وجہ سے آئی ہے۔ قافلے کے سردار نے حضرت یوسفؑ سے پوچھا کیا تو بھاگنا چاہتا تھا۔ حضرت یوسفؑ نے کہا کہ میں اس طوق اور زنجیر میں کہاں جا سکتا ہوں۔ میں نے تو اپنی ماں کی قبر دیکھ کر اپنے آپ کو اونٹھ کی پُشت سے گرایا تھااور اپنی ماں کی قبر سے لپٹ کر رو رہا تھاکہ اس غلام نے آ کر میرے سے اس تلخ لہجے میں بات کی۔ قافلے والوں نے حضرت یوسفؑ سے التجا کی کہ خدا کے لیے یوسف اس عذاب کے ٹل جانے کی دعا کرو۔ جب حضرت یوسفؑ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائےتو وہ عذاب ختم ہو گیا۔ قافلے والے یہ منظر دیکھ رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ اب تو یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کوئی عظیم شخص ہیں۔ قافلے کے سرادار نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں سے زنجیریں اتاردو اور اس کے گلے سے طوق اتار دو۔ اس کا لباسِ غلامی بھی اتار دو اور اسے لباسِ  فاخرہ پہناؤ۔ اب یہ غلاموں کی طرح زمین پہ نہیں چلے گا، اب یہ عزت و احترام اسے اونٹ پہ سوار کیا جائے۔ اب یہ قافلہ دوبارہ مصر کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ قافلہ مختلف مراہلوں سے ہوتا ہوا مصر پہنچ گیا۔مصر کے بادشاہ کا نام ریان بن ولید تھا اور ۔  جب ادھر حضرت یوسفؑ پہنچے تو پورے مصر میں ان کے حسن کا چرچا ہونے لگا۔ اس قافلے کے سردار نے اعلان کروا دیا کہ میں اس غلام کو بیچنے کے لیے لاؤں گا۔ یہ اعلان سنتے ہی ہر شخص جو خرید سکتا ہو یا نہ خرید سکتا ہو اس دن کا انتظار کرنے لگا جس نے حضرت یوسفؑ کو بیچنے کے لیے لانا تھا۔ جب وہ دن آیا جس دن انھیں بیچنا تھا آ گیا۔ قافلے کا سردار حضرت یوسفؑ کو لے کر آیا۔ ہر شخص ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے قیمت ادا کر رہا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ قیمت اتنی بڑھ گئی کہ کوئی عام آدمی انھیں نہ خرید سکتا۔ اس طرح کوئی فیصلہ نہ ہو پایا۔ پھر ان کو ایک تراذو میں بیٹھایا گیا اور کہا گیا اب دوسرے پلڑے میں اس کے وزن کے مطابق سونے ،جواہرات اور اشرفیہ رکھیں جائیں۔  اس وقت مصرکے وزیرِ اعظم کا نام تھا عزیزِمصر۔ اس کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ وہ بھی ان خریداروں میں شامل تھا۔ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ شخص میرا وارث بن جائے۔ اب عزیزِ مصر نے دوسرے پلڑے میں اپنا خزانہ رکھنا شروع کیا۔ سب سے پہلے اس نے چاندی رکھنا شروع کی۔ تراذو پہ کوئی فرق نہ پڑا۔ مزید چاندی منگوائی وہ رکھی لیکن تب بھی ترازو کو کوئی فرق نہ پڑا۔ عزیزِ مصر نے ساری چاندی رکھدی جتنی اس کے پاس تھی لیکن تب بھی تراذو کو کوئی فرق نہ پڑا۔ اسی طرح سونا رکھا گیا اور پھر ہیرے رکھے گئے۔ ایک وقت ایسا آیاکہ عزیزِ مصر نے اپنا سارا خزانہ اس پلڑے میں رکھ دیا لیکن تب بھی تراذو پہ کوئی فرق نہ پڑا۔ حضرت یوسفؑ اس تمام واقعہ کےے دوران بڑے اطمینان سے بیٹھے تھے۔ انھوں نے عزیزِ مصر سے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ عزیزِمصر نے کہا آم کو تول رہے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے پوچھا کس چیز میں؟ عزیزِ مصر نے کہا ہیرے، جواہرات، سونا ، چاندی وغیرہ میں۔ پھر حضرت یوسفؑ نے کہا اچھا! دین کو دنیا کہ ہم وزن کر رہے ہو۔ عزیزِ مصر پریشان ہو گئے۔ وہ سوچنے لگے کہ اب میں حضرت یوسفؑ کو خرید نہیں سکتا ہوں۔ حضرت یوسفؑ نے کہا کہ گھبراؤ نہیں، ایک کام کرو قلم ،دوات اور ایک کاغذ لے آؤ۔ قلم ،دوات اور کاغذ لائے گئے اور حضرت یوسفؑ نے اس کاغذ پہ لکھا﷽ ۔ پھر انھوں نے کہا کہ دوسرے پلڑے میں سے خزانہ نکال دو۔ عزیزِ مصر حیران ہوئے کہ خزانہ تو اور رکھنا چاہیےتاکہ ترازو پہ تھوڑا فرق آئے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا گھبراؤ نہیں اتار دوخزانہ۔ سارا خزانہ اتاڑ دیا گیااور دوسرے پلڑے کو خالی کر دیا۔ حضرت یوسفؑ نے کہا یہ جو پرچی ہے(جس پہ ﷽ لکھا تھا)  اس کو رکھ دو دوسرے پلڑے میں۔ عزیزِ مصر حیران کہ یہ کیا کہہ رہا ہے لیکن پھر بھی اس نے وہ پرچی دوسرے پلڑے میں رکھ دی۔ جیسے ہی عزیزِ مصر نے وہ پرچی اس پلڑے میں رکھی، دونوں پلڑے برابر ہو گئے۔ جب دونوں پلڑے برابر ہوئے تو عزیزِ مصر کو بہت خوشی ہوئی۔ اس نے حضرت یوسفؑ کو خرید لیا اور بہت خوشی سے حضرت یوسفؑ کو اپنے محل میں لے گئے۔عزیزِ مصر جیسے ہی اپنے محل پہنچا اس نے اپنی بیوی ذولیخا کو بُلایا اور کہا کہ یہ شخص ہمارا وارس 
بنے گا، اس کا خیال رکھنا۔  جاری ہے۔۔۔




























Monday 10 June 2019

Hazrat Yousuf (A.S)




حضرت یوسفؑ کابقیہ قصہ

جب حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال دیا اور ان کے بھائی ان کو چھوڑ کر چلے گئے تو حضرت جبرائیلؑ کو اﷲ نے بھیجا۔ حضرت جبرائیلؑ نے کہا "میں رب العالمین کی طرف سے آپ کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ فرما رہا ہے "اے یوسف مطمئین رہو ہم نے تمہیں ضرور سلطنت عطا کرنی ہے"۔ حضرت یوسفؑ کو یہ پیغام دے کر حضرت جبرائیلؑ چلے گئے۔ دوسری طرف حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کی قمیض کو ایک جانور کے خون سے آلودہ کیااور اپنے والد کے پاس اس قمیض  کو لے کر چلے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی سب نے بڑی اداس شکلیں بنا لیں۔ انھوں نے کہابابا جان! ہم کیا بتائیں قیامت گزر گئی ہمیں بڑا افسوس ہے ایک عجیب و غریب واقعہ ہو گیااور ہم آپ کی امانت کی حفاظت نہ کرسکے۔ حضرت یعقوب نے پوچھا کیا ہوا۔ بھائیوں نے کہا بابا جان ہم سے دوڑ لگا رہے تھے، ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس حفاظت کے لیے چھوڑا ہوا تھا لیکن اچھانک سے ایک بھیڑیا آیا اور یوسف کو کھا گیا۔ پھر انھوں نے حضرت یوسف ؑ کا خون آلودہ کرتا اپنے والد کو پیش کیا۔ حضرت یعقوبؑ نے کہا کہ جھوٹ بول رہے ہو بھیڑیے نے نہیں کھایاتم جھوٹی کہانی سنا رہے ہو۔ اگر بھیڑیے نے کھایا ہوتا یوسف کو تو یہ کرتا بُری طرح سے پھٹا ہوا ہوتا۔ بیٹے خاموش ہو کر چلے گئے اور پھر حضرت یعقوب اتنا روئے کہ ان کی بینائی چلی گئی۔ پھر حضرت یعقوب نے اﷲ سے دعا کی کہ موت کے فرشتے کو میرے پاس بھیج۔ دعا قبول ہوئی اور جب موت کے فرشتے نیچے آئے تو حضرت یعقوبؑ نے ان سے پوچھا کیا تم نے میرے یوسف کی روح قبض کر لی ہے۔ موت کے فرشتے نے جواب دیا کہ نہیں! میں نے یوسف کی روح قبض نہیں کی، یوسف زندہ ہے۔ اس کے بعد حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تمہاری سچائی تب ثابت ہوئے گی جب تم اس بھیڑیے کو میرے پاس لے کر آؤ گےجس نے تمہارے مطابق یوسف کو کھایا ہے۔ سارے بھائی گئے اور جنگل سے ایک بھیڑیے کو اٹھا کے لے آئے۔ جب حضرت یعقوبؑ کے بیٹے بھیڑہے کو لے کر آئے تو حضرت یعقوب نے بھیڑیے سے پوچھا کہ کیا تو نے میرے یوسف کو کھایا ہے۔ بھیڑیے نے کہا میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں ۔ ہم پر انبیا اور اولیا کا گوشت حرام ہے۔ میں تو آپ کے ایک دنبے کےقریب نہیں جا سکتاآپ کے بیٹے کو کیسے کھا سکتا ہوں۔ آپ اپنے بیٹوں سے پوچھ کر بتایے کہ کیا میں نے آپ کے بیٹے کو کھایا ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے یہی پوچھا۔  بیٹوں نے جواب دیا ہم نے دیکھا نہیں لیکن اس وقت جنگل میں ایک ہی بھیڑیا پھر رہا تھا اس لیے ہمیں لگا کہ یہی ہو گا۔ پھر حضرت یعقوبؑ نے بھیڑیے سے کہا کہ میں سب جانتا ہوں کے تم بے خطا ہو۔ بھڑیے نے حضرت یعقوبؑ سے کہا کہ میرا ایک بھائی ایک دوسرے شہر میں رہتا ہے۔ میں اپنے بھائی سے ملنے جا رہا  تھا تو آپ کے بیٹے مجھے یہاں اٹھا کے لے آئے۔ یہ سن کر حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ دیکھو ایک طرف یہ بھیڑیا ہے جو اپنے بھائی سے ملنے جا رہا ہے اور ایک طرف تم لوگ ہو جو اپنے بھائی کو بیاباں میں چھوڑ آئے ہو۔ دوسری طرف حضرت یوسفؑ اﷲ کی مدد اور رحمت کا انتظار فرما رہے تھے۔  ایک قافلہ جو مصر جا رہا تھا اپنا راستہ بھول گیا اور وہ قافلہ اس کنوے کے پاس پہنچا۔ ادھر انھوں نے پانی کے لیے اپنے ایک ساتھی کو بھیجا جو وہاں سے پانی لے آئے۔ جب اس آدمی نے پانی لینے کو لیے ڈول کو لٹکایا تو حضرت یوسفؑ نے اس رسی کو پکڑ لیا۔ جب اس آدمی نے ڈول کھینچا تو اسے وہ دول بہت بھاری محسوس ہوا۔ جب اس نے دیکھا تو پانی کے ساتھ ایک بہت خوبصورت لڑکا بھی آیا تھا۔ اس آدمی نے سب کو بُلایا اور کہا کہ آؤ دیکھو یہ کیا منظر ہے۔ قافلے والے حیرت میں پڑ کر سوچنے لگےکہ یہ ہوا کیا ہے۔ اتنی ہی دیر میں حضرت یوسفؑ کے بھائی آ گئے اور بولے یہ ہمارا غلام ہے اور کل یہ کنوے میں گِر گیا تھا ہم نے اسے نکالنے کی کوشش کی لیکن ہم ناکام ہو گئے آج ہم پھر آئیں ہیں اس کو نکالنے کے لیے لیکن تم لوگوں نے تو اسے پہلے ہی نکال لیا ہے۔ قافلے والوں نے کہا کہ یہ تمہاراغلام ہو گا لیکن ابھی ہم نے اس کی جان بچائی ہے اس لیےاس پہ حق ہمارا ہے۔ لیکن اگر یہ تمہارا غلام ہے بھی تو ہمیں اس کو بیچ دو۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کا سودا کر دیااور ان کو بیچ دیا۔ جب حضرت یوسفؑ کو بیچ دیا گیا تو ساتھ ہی ان کے بھائیوں نے کہا کہ یہ بہت سرکش غلام ہے۔ احتیاط کرنا یہ کہیں بھاگ نہ جائے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ تم اس کے گلے اور پیروں میں زنجیریں اور طوق ڈال دو۔ قافلے کے سردار نے یہی کیا۔ زنجیریں اور طوق بلائیں گئیں اور حضرت یوسفؑ کو پہنا دی گئیں۔ ساتھ ہی انہیں غلاموں کا لباس بھی پہنا دیا ۔ حضرت یوسفؑ رونے لگے۔ قافلے کے سردار نے حضرت یوسفؑ سے بڑے عجیب لہجے میں پوچھا اے غلام تو رو کیوں رہا ہے، کیا تو جانتا نہیں ہے کہ ایک سرکش غلام کی یہی سزا ہے، اس کو ایسے ہی رکھا جاتا ہے۔ حضرت یوسفؑ نے جواب دیا میں اس زنجیر اور اس طوق کو دیکھ کر تھوڑی رو رہا ہوں۔ سردار بولا پھر کس چیز پہ رو رہا ہے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا میں تو اس وقت کو یاد کر کے رو رہا ہوں کہ جب کائنات کا سردار اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ سارے گناہ گار بندوں کو پکڑ کر ان کے گلے میں آگ کے طوق اور زنجیریں ڈال دو کہ اس نے ہماری اطاعت سے سرکشی کی ہےاس وقت کی عالم ہو گا۔ قافلے کے سرادر نے دل ہی دل میں کہا کہ یہ جو کنوے سے نکلا ہے کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔ اس نے حضرت یوسفؑ سے کہا ابھی خاموش رہو، یہ سب ہم تمہارے آقاؤں کو دکھانے کے لیے کر رہے ہیں جب یہ چلیں جائیں گے تو میں یہ طوق اور زنجیریں ہٹا دوں گا۔ اس کے بعد وہ لوگ اپنے سفر کے لیے روانہ ہو گئے۔
جاری ہے۔۔۔



























Monday 3 June 2019

Hazrat Yousuf (A.S)





حضرت یوسفؑ

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹے تھے۔ ایک تھے حضرت اسماعیلؑ اور دوسرے تھے حضرت اسحاق۔ حضرت محمدﷺ حضرت اسماعیل کی نسل میں سے ہیں اور حضرت اسحاق کے بیٹے تھے حضرت یعقوبؑ تھے اور ان کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے ایک حضرت یوسفؑ تھے ۔
ایک دن یوسفؑ اپنے والد کے پاس آئے اور کہنے  لگے کہ "اے میرے والدگرامی! میں نے خواب میں گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھاہے، جو مجھے سجدہ کر رہے ہیں"۔  جب حضرت یعقوب نے یہ بات سنی تو کہا "اے میرے بیٹے اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرناکیونکہ یہ سب تم سے حسد کرتے ہیں، یہ تمہارے خلاف ہو جائیں گے"۔ پھر انھوں نے کہا کہ "بیٹا اسی طرح تمہارا رب تمہیں منتخب فرمائے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچائے گااور خابوں کی تعبیر کرنا سکھائے گااور تم پر اور اولاد ِ یعقوب پر اپنی نعمت فرمائے گا"۔ کسی نہ کسی طرح حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کو ان کے خواب کے بارے میں پتا چل گیا۔ وہ سب بھائی سوائے ایک کے جو ان کا سگابھائی بنیا مین تھا پہلے ہی حضرت یوسفؑ سے جلتے تھے کیونکہ ان کے والد حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ سے بہت محبت کرتے تھے اور اس خواب کی وجہ سے ان کے بھائی حضرت یوسف سے اور حسد کرنے لگے۔ سب بھائیوں نے کہا کہ اب یوسف سے نجات پانی ہےتاکہ ہمارے والد ہم سے زیدہ پیار کریں۔ کسی نے کہا کہ یوسف کو قتل کر دو، کسی نے کہا کہ یوسف کو دور کہیں چھوڑ آؤ وغیرہ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ ہے تو ہمارا بھائی تو اس کو قتل نہیں کرتے کسی کنوے میں ڈال دیتے ہیں، کوئی قافلہ جب اس کنوے سے پانی پینے لگے گا تو اس کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے جائے گا۔ سارے بھائیوں نے اس مشورے کو پسند کیا اور اسی پر عمل کیا۔ ایک دن یہ سارے بھائی منصوبہ بندی کرنے کے بعد اپنے والد کے پاس گئے اور ان کے سامنے حضرت یوسفؑ سے بہت پیار کیا اور کہا کہ آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم یوسف کو اپنے ساتھ لے کر کھیلنے جائیں شہر سے باہر۔انھوں نے کہا کہ آپ ہم پر بھروسہ کریں ہم یوسف کو کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ حضرت یعقوبؑ نے کہا کہ میں یوسف کے بغیر بہت غمگین ہو جاؤں گا میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور مجھے خطرہ ہے کے تم اس کے ساتھ کوئی لاپرواہی کرو گے، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں اس کو کوئی بھیڑیا نہ کھا جائے۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے کہا کہ بابا جان ہم پر بھروسہ کریں ہم طاقتور لوگ ہیں ہم یوسف کا بہت خیال رکھیں گے۔ بہت اسرار کے بعد حضرت یعقوبؑ نے انھیں حضرت یوسفؑ کو لے کر جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ کہا کہ دیکھو  یوسف تمہارے پاس امانت ہے اس کا خیال رکھنا۔ اور پھر حضرت یعقوب ؑ نے بڑے دکھی دل سے حضرت یوسفؑ کو رخصت کیا۔ جاتے وقت حضرت یوسفؑ کے بھائی ان کو بہت پیار کر رہے تھے لیکن جیسے ہی وہ تھوڑا دور گئے اور ان کو تسلی ہوئی کہ اب ان کے والد ان کو نہیں دیکھ رہےتو انھوں نے حضرت یوسفؑ کے ساتھ بدتمیزی کی اوران کو ڈانٹا۔ حضرت یوسفؑ کی عمر اس وقت کم تھی ۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انھوں نے اپنے بھائیوں سے پوچھا کہ "میں نے تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے"؟۔ ان کے بھائیوں نے جواب دیاکہ جو تمہارے خواب میں سورج ، چاند اور ستارے آئے تھے ان کو کہو کہ تمہاری مدد کریں۔ حضرت یوسفؑ کو اپنے بھائیوں کی اس بات سے بہت دُکھ پہنچا ۔    پھر تھوڑی دیر بعد وہ کنواں آ گیا جس میں حضرت یوسفؑ کو ڈالنا تھا۔ حضرت یوسفؑ  کو جب کنویں میں ڈالنے گے تو ان کی قمیض لے لی ان کے بھائیوں نے اور ان کو کنویں میں ڈالنے کے بعد چلے گئے۔ جاری ہے۔۔