حضرت یوسفؑ کا بقیہ حصہ
حضرت یوسفؑ جب جوان ہوئے تو ان کا حسن عروج پر پہنچ گیا۔
انھوں نے زلیخا کو ہمیشہ پاک نظر سے دیکھا لیکن زلیخا آپ کے حسن پہ فریقتہ ہو گئی۔
آہستہ آہستہ زلیخا کی یہ محبت ایک دن اس انتہا پہ لے آئی کہ اس نے گناہ کا سوچا۔
ایک دن حضرت یوسفؑ محل کے ایک اندرونی حصے میں تھےکہ زیلخا نے محل کے سارے دروازے
بند کر دیے اور انھوں نے حضرت یوسفؑ کو گناہ کی دعوت دی اور کہا
جلدی آؤ۔ حضرت یوسفؑ نے کہا کہ اﷲ کی پناہ ! وہ میرا مالک
ہے۔ یعنی گھر کا مالک اور تیرا خاوند، میرا آقا ہے۔ مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا
ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں
ہوتا ہے۔ پھر اﷲ نے حضرت یوسفؑ کو تونائی بخشی اور پھر حضرت یوسفؑ محل سے نکلنے کی غرض سے بھاگے۔ جہاں پر سے وہ بھاگے
تھے وہاں سے محل کے باہر تک سات دروازے تھے۔ ہر دروازے پہ تالا لگا ہوا تھا۔ اﷲ کی
قدرت سے سارے دروازوں کے تالے خودبخود کُھلتے جاتے اور حضرت یوسفؑ بھاگتے جاتےاور
زلیخا ان کے پیچھے بھاگتی گئی۔ ساتویں دروازے پہ زلیخا ان کو پکڑنے میں کامیاب
ہوئی اور جیسے ہی زلیخا نے حضرت یوسفؑ کو پکڑا ان کی قمیض پیچھے سے پھٹ گئی۔ اسی کے دوران محل کا دروازہ
کھلا اور عزیزِ مصر اندر داخل ہوا۔ عزیزِ مصر نے جب یہ سارا مصر دیکھا تو اس کو
کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر زلیخا نے اپنا رویہ ہی بدل لیا اور رونے
لگی۔ اس نے عزیزِ مصر سے کہا آپ نے اس شخص کو اپنا بیٹا بنانے کا ارادہ کیا، آپ
جانتے ہیں کہ کیا غضب ہو گیا، اس شخص نے میری عزت پہ ہاتھ ڈالا ہے(نا اعوذُباﷲ) ۔
حضرت یوسفؑ نے عزیزِ مصر سے کہا میں اس کا
تصور بھی نہیں کر سکتا ، آپ میرے آقا ہیں ، یہ عورت مجھے پھسا رہی ہے۔ عزیزِ مصر
نے کہا کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے اپنی صداقت میں بولنے کے لیے۔ حضرت یوسفؑ نے
ارد گرد سوالیہ آنکھوں سے ارد گرد دیکھا لیکن ان کو کچھ نظر نہیں آیا سوائے ایک
چھوٹے بچے کے۔ پھر حضرت یوسفؑ نے دعا کی کہ اے خدا! اب تو ہی میری عزت کی حفاظت
کرنے والا ہے۔یہ دعا پوری ہوئی تو اس بچے نے بولنا شروع کر دیا۔ اس نے کہا کہ اگر
اس کا کُرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ
عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ اور اگر اس کا کُرتا پیچھے کی
جانب سے پھاڑا گیا ہے تو عورت جھوٹی اور یوسف سچا ہے۔عزیزِ مصر اس گواہی کو سننے
کے بعد دیکھتا ہے کہ کُرتا پیچھے سے پھٹا
ہے تو اس کو حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی پہ کوئی شک نہ رہا اور پھر اس نے حضرت یوسفؑ
سے معافی مانگی اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ تو ہی گناہ گار ہے۔ اس کے بعد یہ سارا واقعہ پورے شہر میں پھیل
گیا۔ یہاں تک کہ شہر کی عورتیں زلیخا کو طعنے دینے لگی۔ پھر زلیخا نے ان ساری عورتوں کو اپنے گھر دعوت
دی اور حضرت یوسفؑ کو بہترین لباس پہناکر تیار کیا۔ زلیخا نے ساری عورتوں کو ایک
ایک چھری دی پھل وغیرہ کاٹنے کے لیے۔جب وہ عورتیں پھل کاٹنے لگیں تو زلیخا نے حضرت یوسفؑ کو حکم دیا کہ عورتوں کے سامنے آئیں۔ جیسے ہی
حضرت یوسفؑ کمرے میں آئے اور ان کا نورانی چہرا ان عورتوں نے دیکھا تو ان کا اپنا
ہوش ہی نہ رہا اور انھوں نے اپنا ہاتھ زخمی کر لیا اور انھیں تکلیف کا ذرا احساس
نہ رہا۔ زلیخانے کہا یہی ہیں جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں۔ پھر اس نے حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی کی تعریف
کرتے ہوئے کہا میں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا، لیکن یہ بال بال بچا
رہا۔ اور کو کچھ میں اس سے کہہ رہی ہوں ، اگر یہ نہ کرے تو یقیناً قید کر دیا جائے
گا اور بے شک یہ بہت ہی بے عزت ہو گا۔ ان
سب عورتوں نے ان کو اپنی ملکہ کی فرماں برداری کے لیے کہا لیکن آپ نے سکتی سے
انکار کیا اور وہاں سے جا کر اﷲ سے دعا کی کہ"اے میرے پروردگار! جس بات کی
طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں، اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے۔ اگر تو نے
ان کا فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گااور مالکل نادانوں
سے جا ملوں گا"۔ حضرت یوسفؑ کی بے گناہی ثابت ہو جانے کے باوجود ان کو قید
خانے میں ڈال دیا گیا۔ اسی جیل میں دو اور
نوجوان تھے۔ ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا بادشاہ کا باورچی تھا۔ وہ
کسی جرم میں مشکوک تھے تو بادشاہ نے ان کو قید کر لیا۔ جب ان کی ملاقات حضرت یوسفؑ
سے ہوئی تو وہ ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ دونوں جب رات کو سوئے تو ان کو
ایک عجیب خواب آیا۔ انھوں نے صبح حضرت یوسفؑ سے اپنا خواب بیان کیا۔ ساقی نے کہا
انگوروں کی بیل کی تین شاخیں ہیں، ان میں پتے اُگ آئے اور انگوروں کے گھچے لگ کر
پک گئے ہیں۔ اس نے انھیں لے کر بادشاہ کے پیالے میں نچوڑا اور اسے وہ مشروب پلا
دیا۔ باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیوں کی تین ٹوکڑیاں ہیں اور پرندے سب سے
اوپر کی ٹوکڑی سے کھا رہےہیں۔ حضرت یوسفؑ
نے دونوں کے خوابوں کی تعبیر بتائی ،ساقی سے کہا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ
تمہاری نوکری بہال ہو جائے گی۔ باورچی سے کہا کہ تمہارا بادشاہ تمہیں پھانسی پہ
چڑھا دے گا اور پرندے تمہارے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ حضرت یوسفؑ نے جیسا کہا
ویسا ہی ہوا۔ باورچی کو بادشاہ نے پھانسی پہ چڑھا دیا اور ساقی کی رہائی کا وقت قریب
آگیا۔ حضرت یوسفؑ نے اس ساقی کو پاس بلایا اور کہا کہ جب یہاں سے رہا ہو جانا
توپھر اپنے بادشاہ کو میرے بارے میں
بتانا۔ جب وہ شخص رہا ہوا تو شیطان نے اس کے ذہن سے وہ بات بھلا دی جو اسے
حضرت یوسفؑ نے کہی تھی اور پھر حضرت یوسفؑ طویل عرصہ جیل میں قید رہے۔ جاری ہے۔۔۔
0 comments:
Post a Comment