Get me outta here!

Monday 24 June 2019

Hazrat Yousuf (A.S)




حضرت یوسفؑ کا بقیہ حصہ

حضرت یوسفؑ جب قید میں تھے تو بادشاہ کو ایک خواب آیا۔ اس نے دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور گندم کے ایک پودے میں سات سر سبز بالیاں ہیں ، اچانک سات پتلی بالیوں نے انھیں کھا لیا۔ جیسے ہی صبح ہوئی اس نے اپنے درباریوں اور دوسرے افراد جو خواب کی تعبیر کر سکتے تھے ان کو یہ خواب بتایا۔ لیکن کوئی ان خوابوں کی تعبیر نہ بتا سکا۔ ان درباریوں میں وہ ساقی بھی موجود تھا۔ اس نے سوچا وہ قیدی جس نے مجھے خواب کی تعبیر بتائی تھی میں نے تو اس کا تذکرہ ہی نہیں کیا بادشاہ سے۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ بادشاہ سلامت قید خانے میں ایک قیدی نے مجھے میرے خواب کی تعبیر بتائی تھی اور بالکل سہی بتائی تھی۔ آپ کہیں تو میں اس سے آپ کے خواب کی تعبیر پوچھ آؤں۔ بادشاہ نے کہا بالکل ضرور جاؤ۔ وہ جیل گیا خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے۔ اس نے حضرت یوسفؑ کو بادشاہ کا خواب بتایااور کہا کہ اس کی تعبیر بتاؤ۔ حضرت یوسفؑ نے بغیر کسی شرط کے تعبیر بتائی اور کہا کہ آنے والے ساتھ سال بہت زرخیز ہوں گے۔ ہر طرف اناج، فصل، غلہ ہو گا۔ لیکن اس کے بعد جو سات سال آئیں گےاس میں تاریخ کا بدترین قحط پڑے گا۔ کچھ کھانے کو نہیں ہو گا، لوگ بھوکے مر جائیں گے۔ کچھ کھانے کو نہیں ہو گا۔ اس لیے اپنے بادشاہ کو مشورہ دو کہ اُن سات سالوں کے لیے آج سے ہی غلہ جمع کرنا شروع کر دے تاکہ قحط کے سالوں میں زندہ رہا جا سکے۔ اس ساقی نے یہ تعبیر سنی اور اپنے بادشاہ کو جا کرخواب کی تعبیر بتائی کہ یہ کہہ رہا ہے وہ قیدی۔ بادشاہ نے کہا کہ فوراً اس قیدی کو یہاں بلاؤ۔ وہ گیا اس نے حضرت یوسفؑ کو کہا کہ بادشاہ  سلامت آپ کو طلب کر رہے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے کہا کہ نہیں میں اب ایسے باہر نہیں آؤں گا۔ پہلے ان تمام عورتوں کو بُلواؤ جنہوں نے مجھ پر تہمط لگائی تھی اور زلیخا کو بلاؤ۔ ان سب کو بُلایا گیااوربھرے دربار میں حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی کی گواہی دی۔ میں گناہ کا ارادہ رکھتی تھی۔ جب زلیخا نے حضرت یوسفؑ کی پاک دامنی کی گواہی دے دی تو  حضرت یوسفؑ نے کہا اب میں بادشاہ سے ملنے کو تیار ہوں۔ جب حضرت یوسفؑ محل کے دربار میں داخل ہوئے تو ہر کوئی بادشاہ سمیت آپؑ کا حسن، آپ کی بزرگی، آپ کا ارعب دیکھ کر شدید متاثر ہوئے۔ بادشاہ نے کہا آپ نے خواب کی تعبیر تو بتا دی ہے ،اب اس قحط سے بچنے کے لیے مدد بھی آپ ہی کر دیجیے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا ان معاملات کا انتظام میرے علاوہ کوئی نہیں سمبھال سکتا۔ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ آپ مجھے غلہ کے سرکاری گوداموں کی نگرانی سونپ دیں تاکہ میں آنے والے سات قحط والے سالوں کے لیے غلہ بچا سکوں۔ بادشاہ ویسے بھی حضرت یوسفؑ سے بہت متاثر ہو چکا تھا اس لیے اس نے آپؑ کو اس درجے پہ مقرر کر دیا جس کا انھوں نے کہا۔ جیسا حضرت یوسفؑ نےکہا تھا سات سال ٹھیک گزر گئے اور اس کے اگلے سات سالوں میں قحط پڑ گیا۔ قحط اتنا شدید ہو گیا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ مصر کے علاوہ کسی ملک میں غلہ نہ بچا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا بھر سے قافلے مصر آنے لگے غلہ لینے کے لیے۔ ایک دن حضرت یوسفؑ کے پاس ایک قافلہ آیا غلہ مانگنے کے لیے۔ یہ قافلہ حضرت یوسفؑ کے دس بھائی تھے جنھوں نے آپؑ کو کنوے میں پھینکا۔ وہ آپؑ کو نہ پہچان پائے کیوں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حضرت یوسفؑ  اس مقام و مرتبہ پہ فائز ہوئے لیکن حضرت یوسفؑ نے ان کو پہچان لیا۔ حضرت یوسفؑ نے انہیں اپنے بارے میں نہیں بتایا لیکن ان سے ان کے علاقے کے بارے میں پوچھا، ان کے والد کے بارے میں پوچھا اور پوچھا کہ وہ کتنے افراد ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ ہم ایک ہی باپ کے بارہ بیٹے ہیں ایک بھائی گم ہو گیا ہے اور اس کا چھوٹا بھائی ہمارے والدکے پاس ہے۔ حضرت یوسفؑ نے ان سے کہا کہ اگلی بار جب آؤ گے تو اپنے اس چھوٹے بھائی(بنیامین) کو لے کر آنا ورنہ مت آنا۔ حضرت یوسفؑ نے انھیں بہترین غلہ  دے کر رخصت کر دیا۔ جب وہ سارے بھائی حضرت یعقوبؑ کے پاس پہنچے اور انھوں نے وہ تھیلے کھولے (جن میں غلہ تھا ) تو انھوں نے دیکھا کہ جو رقم انھوں نے غلہ خریدنے کے لیے دی تھی وہ بھی حضرت یوسفؑ نے واپس کر دی۔ یہ دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد سارے بھائی اپنے باپ سے ضد کرنے لگے کہ کچھ دنوں بعد جب غلہ ختم ہو جائے گا تو دوبارہ لینے جانے کے لیے بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے گا۔ انھوں نے کہا ہے کہ چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لانا ورنہ مت  آنا۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کو سختی سے منع فرما دیا۔ جب بھائیوں نے اسرار کیا تو آخر انھوں نے بنیامین کو ان کے ساتھ بھیج دیا اور ان سے وعدہ لیا کہ اس کا خیال رکھنا۔ پھر یہ سارے بھائی دوبارہ حضرت یوسفؑ کے پاس پہنچے ۔ اس بار انھوں نے پھر سے ان کو ان کی قیمت سے بھی زیادہ غلہ دے دیا لیکن بنیامین کو بتا کر اس کے تھیلے میں   اپنے پانی بینے کا پیالہ رکھ دیا۔ جب وہ قافلہ روانہ ہو گیا اور راستے میں پہنچا تو حضرت یوسفؑ نے کچھ لوگ ان کے پیچھے بھیجے۔ انھوں نے کہا کہ رُک جاؤ، تم میں سے کسی نے چوری کی ہے۔ بھائیوں نے کہا ہم نے چوری نہیں کی، ہم چور نہیں ہیں بے شک ہماری تلاشی لے لو۔ تلاشی لی گئی اور بنیامین کے تھیلے میں سے ایک پیالہ برآمد ہو گیا۔ چوری کی وجہ سے حضرت یوسفؑ نے ابنیامین کو روک لیا۔ سارے بھائی روتے رہے لیکن پھر بھی انھیں واپس حضرت یعقوبؑ کے پاس جاناپڑا۔ حضرت یعقوبؑ نے کہا دوبارہ مصر جاؤ اور بنیامین کو واپس لے کر آؤ۔ جب یہ لوگ واپس مصر گئے تو انھوں حضرت یوسفؑ  نے کہا کہ تمہارا ایک بھائی یوسف بھی تھا۔ تم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کو پتا چل گیا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ ان کا بھائی یوسفؑ ہے۔  اس موقع پر انھوں نے اپنی قمیض اتار کر اپنے بھائیوں کو دی اور کہا یہ بابا جان کی آنکھوں پہ رکھنا ان کی بینائی واپس آ جائے گی۔ جب وہ بھائی حضرت یعقوبؑ کے پاس پہنچے بھی نہیں تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے میرے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔اس قمیض سے آپؑ کی بینائی واپس آگئی۔ حضرت یوسفؑ کا تمام خاندان پھر مصر حجرت کر گیا۔ سب دربار یوسف میں پہنچے اور ا ن کے سامنے جھک گئے۔ تب حضرت یوسفؑ نے اپنے والد سے کہا کہ بابا جان یہی وہ دن ہے جو مجھے خواب میں بتایا گیا تھا  کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔ اس خؤاب کا مطلب یہ تھا کہ گیارہ ستارے مطلب گیارہ بھائی، سورج اور چاند مطلب ان کے والدین ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔ اس موقع پہ انھوں نے کہا کہ آج کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ اور یہی بات حضرت محمدﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر بولی تھی اپنی جان کے دشمنوں کو کہ 
آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔




















0 comments:

Post a Comment