Get me outta here!

Monday 17 June 2019

Harat Yousuf (A.S)







حضرت یوسفؑ کا بقیہ قصہ

جب وہ قافلہ روانہ ہوا اور حضرت یوسفؑ کے بھائی گھر کو روانہ ہوے تو قافلے کے سرادر نے ایک غلام کو حضرت یوسفؑ کی نگرانی پہ رکھا دیا کیونکہ اس کو پتہ تھا کہ یہ کوئی عام شخص نہیں اور یہ بھی لگتا تھا کہ کہیں یہ سرکش غلام نہ ہو۔ راستے میں ان کا گزر ایک قبرستان سے ہوا جہاں حضرت یوسفؑ کی والدہ کی قبر تھی۔ حضرت یوسفؑ اپنی والدہ کی قبر کے سامنے گرگئے اور فریاد کی کہ اے مادرِ گرامی آپ تو یہاں کفن میں منہ چھپائےہوئے ہیں ذرا سر اٹھائیں اور دیکھیے کہ میں گلے میں طوق ہے ،میرے پاوں پہ زنجیر ہے، میں نے غلاموں کا لباس پہنا ہےاور آپ کا بیٹا آپ کی زیرت کے لیے آیا ہے۔ اس قبر سے آواز آئی کہ اے فرزند! تیری باتوں نے میرے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے،میرے جگر کو پارہ پارہ کر دیا ہےبیٹا ہر بلا اور مصیبت میں صبر کراﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ جب صبح ہوئی تو جو غلام حضرت یوسفؑ کے اوپر نظر رکھتا تھا اس نے صبح اٹھ کے دیکھا تو حضرت یوسفؑ غائب تھے۔ اس نے باہر جا کے دیکھا تو حضرت یوسفؑ اپنی والدہ کے قبر کے پاس بیٹھے تھے۔ اس نے کہا کہ تمہارے آقاؤں نے سچ کہا تھاتو تو واقعی بہت سرکش ہے، تو شاید بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ ساری باتیں اس نے بہت تلخ  لحجے میں کیں لیکن حضرت یوسفؑ نے منہ سے کچھ نہ کہا لیکن دل سے ایک ایسی آہ نکلی کے فرشتوں میں شوروغل برپا ہو گیا، سیاہ آندھیاں چلنے لگیں ، بجلی چمکنے لگی اور عذاب جیسی کیفیت ہو گئی۔ قافلہ والوں نے یہ دیکھا تو وہ گھبرا گئےاور وہ غلام جس نے حضرت یوسفؑ کو باتیں سنائیں تھیں دربار میں حضرت یوسفؑ کو لے کر آیااور کہنے لگا کہ یہ آفت میری وجہ سے آئی ہے۔ قافلے کے سردار نے حضرت یوسفؑ سے پوچھا کیا تو بھاگنا چاہتا تھا۔ حضرت یوسفؑ نے کہا کہ میں اس طوق اور زنجیر میں کہاں جا سکتا ہوں۔ میں نے تو اپنی ماں کی قبر دیکھ کر اپنے آپ کو اونٹھ کی پُشت سے گرایا تھااور اپنی ماں کی قبر سے لپٹ کر رو رہا تھاکہ اس غلام نے آ کر میرے سے اس تلخ لہجے میں بات کی۔ قافلے والوں نے حضرت یوسفؑ سے التجا کی کہ خدا کے لیے یوسف اس عذاب کے ٹل جانے کی دعا کرو۔ جب حضرت یوسفؑ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائےتو وہ عذاب ختم ہو گیا۔ قافلے والے یہ منظر دیکھ رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ اب تو یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کوئی عظیم شخص ہیں۔ قافلے کے سرادار نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں سے زنجیریں اتاردو اور اس کے گلے سے طوق اتار دو۔ اس کا لباسِ غلامی بھی اتار دو اور اسے لباسِ  فاخرہ پہناؤ۔ اب یہ غلاموں کی طرح زمین پہ نہیں چلے گا، اب یہ عزت و احترام اسے اونٹ پہ سوار کیا جائے۔ اب یہ قافلہ دوبارہ مصر کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ قافلہ مختلف مراہلوں سے ہوتا ہوا مصر پہنچ گیا۔مصر کے بادشاہ کا نام ریان بن ولید تھا اور ۔  جب ادھر حضرت یوسفؑ پہنچے تو پورے مصر میں ان کے حسن کا چرچا ہونے لگا۔ اس قافلے کے سردار نے اعلان کروا دیا کہ میں اس غلام کو بیچنے کے لیے لاؤں گا۔ یہ اعلان سنتے ہی ہر شخص جو خرید سکتا ہو یا نہ خرید سکتا ہو اس دن کا انتظار کرنے لگا جس نے حضرت یوسفؑ کو بیچنے کے لیے لانا تھا۔ جب وہ دن آیا جس دن انھیں بیچنا تھا آ گیا۔ قافلے کا سردار حضرت یوسفؑ کو لے کر آیا۔ ہر شخص ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے قیمت ادا کر رہا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ قیمت اتنی بڑھ گئی کہ کوئی عام آدمی انھیں نہ خرید سکتا۔ اس طرح کوئی فیصلہ نہ ہو پایا۔ پھر ان کو ایک تراذو میں بیٹھایا گیا اور کہا گیا اب دوسرے پلڑے میں اس کے وزن کے مطابق سونے ،جواہرات اور اشرفیہ رکھیں جائیں۔  اس وقت مصرکے وزیرِ اعظم کا نام تھا عزیزِمصر۔ اس کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ وہ بھی ان خریداروں میں شامل تھا۔ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ شخص میرا وارث بن جائے۔ اب عزیزِ مصر نے دوسرے پلڑے میں اپنا خزانہ رکھنا شروع کیا۔ سب سے پہلے اس نے چاندی رکھنا شروع کی۔ تراذو پہ کوئی فرق نہ پڑا۔ مزید چاندی منگوائی وہ رکھی لیکن تب بھی ترازو کو کوئی فرق نہ پڑا۔ عزیزِ مصر نے ساری چاندی رکھدی جتنی اس کے پاس تھی لیکن تب بھی تراذو کو کوئی فرق نہ پڑا۔ اسی طرح سونا رکھا گیا اور پھر ہیرے رکھے گئے۔ ایک وقت ایسا آیاکہ عزیزِ مصر نے اپنا سارا خزانہ اس پلڑے میں رکھ دیا لیکن تب بھی تراذو پہ کوئی فرق نہ پڑا۔ حضرت یوسفؑ اس تمام واقعہ کےے دوران بڑے اطمینان سے بیٹھے تھے۔ انھوں نے عزیزِ مصر سے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ عزیزِمصر نے کہا آم کو تول رہے ہیں۔ حضرت یوسفؑ نے پوچھا کس چیز میں؟ عزیزِ مصر نے کہا ہیرے، جواہرات، سونا ، چاندی وغیرہ میں۔ پھر حضرت یوسفؑ نے کہا اچھا! دین کو دنیا کہ ہم وزن کر رہے ہو۔ عزیزِ مصر پریشان ہو گئے۔ وہ سوچنے لگے کہ اب میں حضرت یوسفؑ کو خرید نہیں سکتا ہوں۔ حضرت یوسفؑ نے کہا کہ گھبراؤ نہیں، ایک کام کرو قلم ،دوات اور ایک کاغذ لے آؤ۔ قلم ،دوات اور کاغذ لائے گئے اور حضرت یوسفؑ نے اس کاغذ پہ لکھا﷽ ۔ پھر انھوں نے کہا کہ دوسرے پلڑے میں سے خزانہ نکال دو۔ عزیزِ مصر حیران ہوئے کہ خزانہ تو اور رکھنا چاہیےتاکہ ترازو پہ تھوڑا فرق آئے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا گھبراؤ نہیں اتار دوخزانہ۔ سارا خزانہ اتاڑ دیا گیااور دوسرے پلڑے کو خالی کر دیا۔ حضرت یوسفؑ نے کہا یہ جو پرچی ہے(جس پہ ﷽ لکھا تھا)  اس کو رکھ دو دوسرے پلڑے میں۔ عزیزِ مصر حیران کہ یہ کیا کہہ رہا ہے لیکن پھر بھی اس نے وہ پرچی دوسرے پلڑے میں رکھ دی۔ جیسے ہی عزیزِ مصر نے وہ پرچی اس پلڑے میں رکھی، دونوں پلڑے برابر ہو گئے۔ جب دونوں پلڑے برابر ہوئے تو عزیزِ مصر کو بہت خوشی ہوئی۔ اس نے حضرت یوسفؑ کو خرید لیا اور بہت خوشی سے حضرت یوسفؑ کو اپنے محل میں لے گئے۔عزیزِ مصر جیسے ہی اپنے محل پہنچا اس نے اپنی بیوی ذولیخا کو بُلایا اور کہا کہ یہ شخص ہمارا وارس 
بنے گا، اس کا خیال رکھنا۔  جاری ہے۔۔۔




























0 comments:

Post a Comment