حضرت یوسفؑ کابقیہ قصہ
جب حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال دیا اور ان کے بھائی ان کو
چھوڑ کر چلے گئے تو حضرت جبرائیلؑ کو اﷲ نے بھیجا۔ حضرت جبرائیلؑ نے کہا "میں
رب العالمین کی طرف سے آپ کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ فرما رہا ہے
"اے یوسف مطمئین رہو ہم نے تمہیں ضرور سلطنت عطا کرنی ہے"۔ حضرت یوسفؑ
کو یہ پیغام دے کر حضرت جبرائیلؑ چلے گئے۔ دوسری طرف حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے
حضرت یوسفؑ کی قمیض کو ایک جانور کے خون سے آلودہ کیااور اپنے والد کے پاس اس قمیض
کو لے کر چلے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی سب نے
بڑی اداس شکلیں بنا لیں۔ انھوں نے کہابابا جان! ہم کیا بتائیں قیامت گزر گئی ہمیں
بڑا افسوس ہے ایک عجیب و غریب واقعہ ہو گیااور ہم آپ کی امانت کی حفاظت نہ کرسکے۔
حضرت یعقوب نے پوچھا کیا ہوا۔ بھائیوں نے کہا بابا جان ہم سے دوڑ لگا رہے تھے، ہم
نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس حفاظت کے لیے چھوڑا ہوا تھا لیکن اچھانک سے ایک
بھیڑیا آیا اور یوسف کو کھا گیا۔ پھر انھوں نے حضرت یوسف ؑ کا خون آلودہ کرتا اپنے
والد کو پیش کیا۔ حضرت یعقوبؑ نے کہا کہ جھوٹ بول رہے ہو بھیڑیے نے نہیں کھایاتم
جھوٹی کہانی سنا رہے ہو۔ اگر بھیڑیے نے کھایا ہوتا یوسف کو تو یہ کرتا بُری طرح سے
پھٹا ہوا ہوتا۔ بیٹے خاموش ہو کر چلے گئے اور پھر حضرت یعقوب اتنا روئے کہ ان کی
بینائی چلی گئی۔ پھر حضرت یعقوب نے اﷲ سے دعا کی کہ موت کے فرشتے کو میرے پاس
بھیج۔ دعا قبول ہوئی اور جب موت کے فرشتے نیچے آئے تو حضرت یعقوبؑ نے ان سے پوچھا
کیا تم نے میرے یوسف کی روح قبض کر لی ہے۔ موت کے فرشتے نے جواب دیا کہ نہیں! میں
نے یوسف کی روح قبض نہیں کی، یوسف زندہ ہے۔ اس کے بعد حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں
سے کہا کہ تمہاری سچائی تب ثابت ہوئے گی جب تم اس بھیڑیے کو میرے پاس لے کر آؤ
گےجس نے تمہارے مطابق یوسف کو کھایا ہے۔ سارے بھائی گئے اور جنگل سے ایک بھیڑیے کو
اٹھا کے لے آئے۔ جب حضرت یعقوبؑ کے بیٹے بھیڑہے کو لے کر آئے تو حضرت یعقوب نے
بھیڑیے سے پوچھا کہ کیا تو نے میرے یوسف کو کھایا ہے۔ بھیڑیے نے کہا میں ایسا کیسے
کر سکتا ہوں ۔ ہم پر انبیا اور اولیا کا گوشت حرام ہے۔ میں تو آپ کے ایک دنبے
کےقریب نہیں جا سکتاآپ کے بیٹے کو کیسے کھا سکتا ہوں۔ آپ اپنے بیٹوں سے پوچھ کر
بتایے کہ کیا میں نے آپ کے بیٹے کو کھایا ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے یہی
پوچھا۔ بیٹوں نے جواب دیا ہم نے دیکھا
نہیں لیکن اس وقت جنگل میں ایک ہی بھیڑیا پھر رہا تھا اس لیے ہمیں لگا کہ یہی ہو
گا۔ پھر حضرت یعقوبؑ نے بھیڑیے سے کہا کہ میں سب جانتا ہوں کے تم بے خطا ہو۔ بھڑیے
نے حضرت یعقوبؑ سے کہا کہ میرا ایک بھائی ایک دوسرے شہر میں رہتا ہے۔ میں اپنے
بھائی سے ملنے جا رہا تھا تو آپ کے بیٹے
مجھے یہاں اٹھا کے لے آئے۔ یہ سن کر حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ دیکھو ایک
طرف یہ بھیڑیا ہے جو اپنے بھائی سے ملنے جا رہا ہے اور ایک طرف تم لوگ ہو جو اپنے
بھائی کو بیاباں میں چھوڑ آئے ہو۔ دوسری طرف حضرت یوسفؑ اﷲ کی مدد اور رحمت کا
انتظار فرما رہے تھے۔ ایک قافلہ جو مصر جا
رہا تھا اپنا راستہ بھول گیا اور وہ قافلہ اس کنوے کے پاس پہنچا۔ ادھر انھوں نے
پانی کے لیے اپنے ایک ساتھی کو بھیجا جو وہاں سے پانی لے آئے۔ جب اس آدمی نے پانی
لینے کو لیے ڈول کو لٹکایا تو حضرت یوسفؑ نے اس رسی کو پکڑ لیا۔ جب اس آدمی نے ڈول
کھینچا تو اسے وہ دول بہت بھاری محسوس ہوا۔ جب اس نے دیکھا تو پانی کے ساتھ ایک
بہت خوبصورت لڑکا بھی آیا تھا۔ اس آدمی نے سب کو بُلایا اور کہا کہ آؤ دیکھو یہ
کیا منظر ہے۔ قافلے والے حیرت میں پڑ کر سوچنے لگےکہ یہ ہوا کیا ہے۔ اتنی ہی دیر
میں حضرت یوسفؑ کے بھائی آ گئے اور بولے یہ ہمارا غلام ہے اور کل یہ کنوے میں گِر
گیا تھا ہم نے اسے نکالنے کی کوشش کی لیکن ہم ناکام ہو گئے آج ہم پھر آئیں ہیں اس
کو نکالنے کے لیے لیکن تم لوگوں نے تو اسے پہلے ہی نکال لیا ہے۔ قافلے والوں نے
کہا کہ یہ تمہاراغلام ہو گا لیکن ابھی ہم نے اس کی جان بچائی ہے اس لیےاس پہ حق
ہمارا ہے۔ لیکن اگر یہ تمہارا غلام ہے بھی تو ہمیں اس کو بیچ دو۔ حضرت یوسفؑ کے
بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کا سودا کر دیااور ان کو بیچ دیا۔ جب حضرت یوسفؑ کو بیچ دیا
گیا تو ساتھ ہی ان کے بھائیوں نے کہا کہ یہ بہت سرکش غلام ہے۔ احتیاط کرنا یہ کہیں
بھاگ نہ جائے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ تم اس کے گلے اور پیروں میں زنجیریں اور طوق ڈال
دو۔ قافلے کے سردار نے یہی کیا۔ زنجیریں اور طوق بلائیں گئیں اور حضرت یوسفؑ کو
پہنا دی گئیں۔ ساتھ ہی انہیں غلاموں کا لباس بھی پہنا دیا ۔ حضرت یوسفؑ رونے لگے۔
قافلے کے سردار نے حضرت یوسفؑ سے بڑے عجیب لہجے میں پوچھا اے غلام تو رو کیوں رہا
ہے، کیا تو جانتا نہیں ہے کہ ایک سرکش غلام کی یہی سزا ہے، اس کو ایسے ہی رکھا
جاتا ہے۔ حضرت یوسفؑ نے جواب دیا میں اس زنجیر اور اس طوق کو دیکھ کر تھوڑی رو رہا
ہوں۔ سردار بولا پھر کس چیز پہ رو رہا ہے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا میں تو اس وقت کو یاد
کر کے رو رہا ہوں کہ جب کائنات کا سردار اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ سارے گناہ
گار بندوں کو پکڑ کر ان کے گلے میں آگ کے طوق اور زنجیریں ڈال دو کہ اس نے ہماری
اطاعت سے سرکشی کی ہےاس وقت کی عالم ہو گا۔ قافلے کے سرادر نے دل ہی دل میں کہا کہ
یہ جو کنوے سے نکلا ہے کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔ اس نے حضرت یوسفؑ سے کہا ابھی
خاموش رہو، یہ سب ہم تمہارے آقاؤں کو دکھانے کے لیے کر رہے ہیں جب یہ چلیں جائیں
گے تو میں یہ طوق اور زنجیریں ہٹا دوں گا۔ اس کے بعد وہ لوگ اپنے سفر کے لیے روانہ
ہو گئے۔
جاری ہے۔۔۔
0 comments:
Post a Comment