اخلاص وتقویٰ
اخلاص کے معنی:
اخلاص کے لیے ہم خلوص نیت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس
کے لفظی معنی ہیں خالص کرنا۔ خالص کرنا کسی ایسی چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو ملاوت
سے پاک ہو۔ اسی طرح دین میں اخلاص کا یہی مطلب ہے کہ ایک آدمی جو کام کرے وہ اﷲ کی
خوشنودی کے لیے کرے۔ اس سے کوئی ذاتی غرض وابستہ نہ ہو۔ جو آدمی اخلاص سے کام کرے
اسے مخلص کہتے ہیں۔
تقویٰ کے معنی:
تقویٰ کے معنی ہیں ڈرنا، بچنا یا پرہیزگاری کرنا۔ شریعت میں
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں اس بات کا احساس اور خوف پیدا ہو جائےکہ اﷲ
میری ہر بات کو دیکھ رہا ہےجس کے مطابق حساب کتاب کے بعد انعام یا سزا دی جائے
گی۔اس خوف کی وجہ سے وہ تمام برے کاموں سے دور رہتا ہے۔
اخلاص و تقویٰ کا مفہوم:
جب اخلاص اور تقویٰ کو ملا کر بولا جائے تو اس کے معنی ہیں
کہ انسان نیکی اور پرہیزگاری اس غرض سے اختیار کرے کہ اﷲ اس سے راضی ہو جائے گا
اور وہ بُرے کاموں سے بچ جائے گا۔ اسے ہم نیک نیتی بھی کہہ سکتے ہیں۔
بلندئی اخلاق:
اخلاصوتقویٰ، اخلاقی بلندی کا آخری رکن ہے۔ اس لیے ہم پر
لازم ہے کہ ہم ہر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کریں یا کوئی نیک کام کریں تو وہ صرف اس
نیت سے کیا جائے کہ ہمارا خالق اور پروردگار
ہم سے راضی ہو جائے۔ وہ ہم پر رحم فرمائے اور ہم سے ناراض نہ ہو۔
واقعہ:
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے حضرت اُبی بن کعب سے تقویٰ
کی حقیقت دریافت کی۔ حضرت اُبی بن کعب سے کہا امیر المومنین! کبھی آپ کا کسی ایسے
راستے سے بھی گزر ہوا ہو جس میں ہر طرف خاردار جھاڑیاں ہوں؟ حضرت عمرنے فرمایا ہاں، جب میں اپنے باپ کے اونٹ چرایا کرتا تھا تو اکثر ایسے راستوں سے گزرا کرتا
تھا۔ حضرت اُبی بن کعب نے کہا آپ وہ راستہ کس طرح طے کرتے تھے؟ حضرت عمر نے
فرمایا میں اپنے کپڑے سمیٹ لیتا تھا۔ ایک طرف اپنا دامن کانٹوں سے بچانے کی کوشش
کرتا اور دوسری طرف کانٹوں کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا۔ اور بہت احتیاط
سے پھونک پھونک کر، قدم رکھتا۔
حضرت اُبی بن کعب نے کہا "یہی تقویٰ
ہے"۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
ترجمہ: "مومنو! اﷲ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے
اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا"۔ (آل عمران:102)
رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: "اعمال کا دارومدا نیتوں پر ہے"۔
0 comments:
Post a Comment