Note: in this paragraph written that how Hazrat Muhammad (P.B.U.H) forgive all his enemies and how Abu Sufyan become a Muslim.
فتح مکہ
صلح حدیبیہ میں مسلمانوں اور قریش مکہ کہ درمیان یہ طے پایا کہ دونوں دس سال تک جنگ نہیں کر سکتے۔ قبیلہ بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ مل گیا اور قبیلہ بنو بکر قریش کے ساتھ مل گیا۔ پرانی دشمنی کی وجہ سے بنو بکر نے رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پہ حملہ کر دیا۔ اتنی دیر میں بنو خزاعہ کا ایک فرد آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور کہا کہ قریش اور بنو بکر نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ نبی کریمﷺ نے حضرت ضمرہ کو قریش مکہ کی طرف بھیجا اور تین شرطیں پیش کیں کہ کہ ان میں سے ایک کو اختیار کر لیں۔پہلی شرط: بنو خزاعہ کے مقتولیں کا خون بہا دیا جائے، دوسری شرط:بنو بکر کی ہمایت سے دست بردار ہو جائیں ،تیسری شرط: معاہدہ حدیبیہ کے ختم کرن کا اعلان کر دیں۔
قریش نے جلد بازی میں تیسری شرط قبول کر لی۔ جلد ہی ان کو اپنی بدعہدی کا احساس ہوا انھوں نے ابو سفیان کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ اس معاہدے کی پھر تجدید کریں۔ ابو سفیان کو حضرت محمد ﷺسے کوئی جواب نہ ملا اور نا کسی اور صحابہ سے۔
رسول اکرمﷺ 10 رمضان المبارک 8 ہجری کو مکہ مکرمہ کی طرف رونہ ہوے۔ آپﷺ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام گئے۔ قریش مکہ کو آپﷺ کے نکلنے کی خبر مل چکی تھی۔ تحقیق کے لیے انھوں نے ابو سفیان بن حرب اور حکیم بن حزام اور بدیل بن وقار کو بھیجانبی کریمﷺ کے خیمہ کی حفاظت پر جو دستہ معین تھا، انھوں نے ابو سفیان وغیرہ کو دیکھ لیا اور پکڑ کر رسولﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ حضور اکرمﷺ نے ابو سفیان کو اسلام کی دعوت دی۔ ابو سفیان نے وہ دعوت قبول کر لی۔آپﷺ نے ابو سفیان کو عزت دی اور فرمایا"جو کوئی ابو سفیان کہ گھر میں پناہ لے گا اسے امان ہے۔ اس کے علاوہ جو ہتھیار ڈال دے، مسجد حرام میں داخل ہو جائے یا اپنا دروازہ بند کر لے اسے بھی امان ہے ۔ حضرت ابو سفیان تیزی سے مکہ مکرمہ پہنچے اور حضؤر اکرم کا پیغام لوگوں کو دیا اور قریش کو بتایا کہ ان میں مسلمانوں سے لڑنے کی ہمت نہیں۔حضور اکرمﷺنے مکہ مکرمہ میں داخل ہو کہ اسلامی لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔اس کے بعد حضور اکرمﷺ سارے اصحابہ کرام کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گئے۔ حجر اسود کو چوما اور خانہ کعبہ کا طواف کیاپھر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے۔ آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھا اور خانہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے اور تمام بتوں کو توڑ دیا۔ آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کے اندر نماز ادا فرمائی۔ قریش مسجد حرام کے سامنے کھڑے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا"قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں"؟وہ بولے اچھا۔آپﷺ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے صاحب زادے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا"آج میں تم سے وہی بات کر رہا ہوں جو حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کی تھی۔ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو"۔
0 comments:
Post a Comment