Get me outta here!

Thursday 20 September 2018

واقعہ کربلا

حضرت امام حسین ؑ

امام حسینؑ حضور اکرم ﷺ کے نواسے اور حضرت علی اور فاظمہ کے لختے جگر(بیٹے) ہیں۔ جب وہ چھوٹے تھے تو حضرت محمد ﷺ حسنؑ کے لبوں اور حسین ؑ کی گردن کو بوسا دیا کرتے تھے تو جب انھوں نے یہ عمل بار بار کیا تو حضرت فاطمہ نے ان سے پوچھا کہ "آپ حسن کے لبوں کو اور حسین کی گردن کو کیوں بوسا دیتے ہیں"۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا "کیونکہ میرے حسن کو زہر پلایا جائے گا اور حسین کی گردن کاٹ دی جائے گی"۔ یہ جاننے کے باوجود بھی حضور اکرمﷺ نے کبھی بھی یہ دعا نہیں مانگی کہ ان کو اس آزمائش سے نہ گزارنا بلکہ انھوں نے ہمیشہ یہ دعا مانگی کہ ان کو اس آزمائش میں ثابت قدم رکھنا۔
جب وہ بڑے ہوئے تو قوفہ (عراق کا شہر) میں  یزید نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ (یزید ایک ملعون ،فاسق،فاجر  تھا کیونکہ وہ ہر گناہ کرتا تھا لیکن وہ خطبہ بھی دیتا تھا، نماز بھی پڑتا تھا وغیرہ)۔ وہ ادھر بہت ظلم کرتا تھا اس لیے لوگوں نے تمام ظلموں کی فہرست بنا کر حضرت امام حسینؑ کو بھیجتے رہے۔ جب کافی پیغامات آگئے تو حضرت امام حسین ؑنے ادھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ کسی جنگ کے امکان سے نہیں نکلے تھے اس لیے وہ اپنے سارے گھر والوں کو اور کچھ آدمیوں کو لے کے جا رہے تھے۔کیونکہ انھوں نے کہ رکھا تھا کہ جب تک کوئی بندہ تلوار لے کر تم تک نہ آئے اس وقت تک تم  اس کو نہ مارنا۔ جب وہ راستے میں تھے تو فجر کے وقت مسلم ابن عقیل نے خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر بیت کا اعلان کیا اور سب سے پہلے ان کے صاحبزادے نے ان کے ہاتھ پہ بیت لی اور اسی طرح چالیس ہزار لوگوں نے ان کے ہا تھ پر بیت لی۔جب یزید نے یہ دیکھا کہ اگر اس طرح لوگ  بیت لیتے گئے تو ان کی قوم بڑھتی جائے گی اس لیے اس نے ایک انعام رکھا کہ جو اس کے پاس آئے اس کو انعام ملے گا۔ ظہر کے وقت بیس ہزار افراد رہ گئے، عصر کے وقت دس ہزار رہ گئے، جب مغرب کی نیت کی تو پانچ سو  لوگ رہ گئےاور جب سلام پھیرا تو ایک بندہ بھی نہیں تھا۔پھر ان یزیدوں نے مسلم ابن عقیل کو اور ان کے صاہبزادوں کو شہید کر دیا۔  یہ بات جب حضرت امام حسینؑ کو بتائی گئی تو وہ ادھر پہنچ گئے تھے۔ پھر حضرت حرُؑ( یزید کے سپہ سالار) نے جا کر بتایا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں یہاں پر جنگ ہو جائے گی وہ اس لیے وہاں سے چلے گئے ۔ جب صبح ہوئی تو حضرت امام حسینؑ  اسی جگہ پہ موجود تھے اگلے دن  پھر ادھر ہی تھے انھوں نے پوچھا کہ ہم کہاں ہیں تو جواب ملا کہ ہم کربلا کے میدان میں ہیں ۔ انھوں نے فرمایا کہ یہیں پر خیمے لگا  دو۔
اس کے بعد پھر سے حضرت حرُؑنے کہا کہ انھوں نے آپ کے باپ کے ساتھ، آپ کے بھائی کے ساتھ بھلائی نہیں کی تو آپ کے ساتھ کیسے کریں گے۔ پھر وہ بھی ادھر  حضرت امام حسینؑ کے پاس ہی رہ گیا۔ اور کہا   آپ کو مارنے سے پہلے ان کو مجھے مارنا پڑے گا اور ایسا ہی ہوا  حضرت امام حسینؑ کی طرف سے پہلے آدمی یہی نکلے۔ پھر دشمنوں نے ان کا پانی بند کر دیا۔ لیکن ان کو کوئی فرق نہ پڑا اور اچانک سے ایک جن حاضر ہو گیا اور ان سے کہا کہ"اگر آپ چاہیں تو میں پانی ادھر لا دیتا ہوں" لیکن انھوں نے فرمایا" اگر ہمیں پانی چاہیے ہوتا تو دریا فولاد خود چل کر آ جاتا"۔ یہ سن کر جن غائب ہو گیا اور وہ لڑتے رہے۔ حضرت عباس اس دریا پر پہنچ گئے لیکن پھر بھی انھوں نے پانی نہیں پیا۔ کہ قیامت کے روز میں بیبی سکینہ (حضرت امام حسینؑ  کی صاحبزادی )کو کیا جواب دوں گا کہ میں تو بڑا ہوں اور وہ چھوٹی ہیں اس لیے وہ پانی کا مشکیزہ کو بھر کرساتھ لے آئے۔آتے وقت ان کو تیر لگ گئے۔ حضرت امام حسینؑ نے اپنے بیٹے علی اصغر (جو کہ چھ ماہ کے تھے) ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ"یہ میرا بیٹا ہےاور میں حضور اکرمﷺ   کا  نواسہ ہوں اور میں یہ تمھیں اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ اس قیامت کے روز تم میرے نانا کے پاس کس منہ سے آب کوثر پینے جاؤ گے"۔ جب عصر کا وقت ہونے والا  تھا تو حضرت امام حسینؑ کی تلوار ہی نہیں رُک رہی تھی جہاں وہ جاتے سب کو اڑادیتے تھے۔ ان کے دونوں بیٹے علی اصغر اور علی اکبر کو بھی شہید کر دیا گیا۔ ان کا ایک بیٹا زین العابدین بیمار ہو گئے تھے اس لیے وہ خیمے میں ہی رہے۔

اسی طرح عصر  کا وقت بھی ہو گیا یزید نے شمر کو کہا کہ بےوقوف عصر کا وقت ہو گیا ہے آزان دو گے تو سارے نماز پڑھنے لگ جائیں گے تو پھر شہید کر دینا"۔ اور پھر حضرت امام حسینؑ نے اپنے خون سے وضو کیا اور جب سجدہ کیا تو شمر جا کہ ان پہ بیٹھ گیا اور ان کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد یزید حضرت امام حسینؑ  کےخیمےمیں  پہنچے اور کہا کہ ہمیں خیمے کو لوٹنا  ہے۔ تو حضرت زینب نے کہا"آپ ہمیں ایک خیمہ لگا دیں جس میں ہم عورتیں بیٹھ جایئں گی اور آپ دوسرے  خیموں کی لوٹ لیجیے گا " اور پھر انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جب خیمے  کی تلاشی ہوی تو ایک گھونٹ پانی  بھی نہ نکلا اور انھوں نے تو حضرت امام حسینؑ  کو شہید اسی وجہ سے ہی کیا تھاکہ تمام مال و اسباب کے مالک ہم بن جا ئیں گے۔ اس لیے وہ سارے اپنے آپ کو پیٹنے لگ گئے۔ حضرت زینب نے کہا" یہ لوگ قیامت تک اپنے آپ کو ایسے ہی پیٹتے رہیں گے"۔  













0 comments:

Post a Comment