Get me outta here!

Monday 16 July 2018

Ashab e Kahaf

اصحابے کہف


بہت عرصہ  پہلے ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا نام دکیا نوس تھا۔ وہ بہت سخت تھا۔جو بھی اس کا حکم نہیں مانتا تھا  وہ  اس کو کڑی  سزا دیتا تھا۔   اس کے اس چھ وزیر تھے۔ بادشاہ اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا۔ پھر ایک دن جب بادشاہ نے اپنے گھرانے میں ایک دعوت رکھی اور سب کو بلایا، جب دعوت چل رہی تھی تو اس کے چھ وزیر میں سے ایک  اس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ دوسرے ملک کے بادشاہ ہمارے ملک پر حملہ کرنے والا ہے۔ بادشاہ یہ بات سنتے ہی گھبرا گیا۔ جب ساتوں وزیروں نے بادشاے کو پریشان دیکھا تو  وہ ساوچنے لگے کہ اگر یہ خدا ہے تو گھبرا کیوں رہا ہے۔رات کو سب وزیر ایک دوسرے کے گھر کھانا کھانے جایا کرتے تھے اس دن بھی وہ سب اکٹھے ہوے اورسب سوچنے لگے کہ اس دنیا کا مالک کون ہے کیونکہ دکیانوس تو خدا نہیں ہے۔ انھوں نے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ صبح ہوتے ہی سارے وزیر گھوڑوں پر بیٹھ کہ چلے گئے۔ راستے میں انھوں نے سوچا کہ جب ہم دکیا نوس کو چھوڑ دیا ہے تو گھوڑوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ انھوں نے  گھوڑوں کو بھی چھوڑ دیا۔ جب وہ چل رہے تھے تب ان کو راستے میں ایک اور شخص مل گیا۔ وہ ایک چرواہا تھا وہ بھی ان کے ساتھ مل گیا لیکن اس کے ساتھ اس کا ایک کتا بھی آگیا ان وزیروں نے کہا کہ یہ تو بھونکنا شروع کر دے گالیکن چرواہا کہنے لگا کہ یہ نہیں بھونکے گاپھر  وہ چل پڑے۔وہ سب ایک غار کے پاس پہنچے۔(جاری ہے۔ )

Sunday 1 July 2018

Jugnoo aur Bulbul




 نظم ہمدردی
 (علامہ اقبال)

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا                     بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
اڑنے چگنے میں دن گزارا                 کہتا تھا کہ رات سر پر آئی
ہر چیز پر چھا گیا اندھیرا                پہنچوں کس طرح آشیاں تک
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا                  سن کر بلبل کی آہ وازی
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذراسا            حاضر ہوں مدد کو جانودل سے
میں راہ میں روشنی کر دوں گا      کیا غم ہے جو رات ہیں اندھیری
نے دی ہے مجھ کو مشعل                چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ جہاں وہی میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے