(علامہ اقبال)
ٹہنی
پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا
کوئی اداس بیٹھا
اڑنے چگنے میں دن گزارا کہتا تھا کہ رات
سر پر آئی
ہر چیز پر چھا گیا اندھیرا پہنچوں کس طرح
آشیاں تک
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا سن کر بلبل کی آہ وازی
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذراسا حاضر ہوں مدد
کو جانودل سے
میں راہ میں روشنی کر دوں
گا کیا غم ہے جو رات
ہیں اندھیری
ﷲ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا
کے مجھے دیا بنایا
ہیں
لوگ جہاں وہی میں اچھے
آتے
ہیں جو کام دوسروں کے
0 comments:
Post a Comment